ترجمہ و تحقیق: فرمان علی سعیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | آداب بندگی کو مختلف جہتوں سے زیر بحث لایا جا سکتا ہے اور ہم یہاں اس کی اہمیت اور مراتب، اقسام، مصادیق، علامات اور آثار کے سلسلہ میں جاری بحث کو بیان کریں گے:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ صَلّیَ اللهُ عَلَى خَیرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِین۔
مقدمہ:
بندگی کے آداب کے موضوع پر گفتگو چل رہی تھی، رمضان بندگی کے تمرین کا مہینہ ہے، تربیت اور بندگی کے آداب کے لیے رضایت اور تمرین کا مہینہ کا ہے۔
بندگی کی اہمیت اور اسلوب سے آشنا ہونے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بندگی کے آداب کو حاصل کرنے اور اسے مضبوط کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
اس اہم سوال کے جواب کے لیے چند نکات پیش کرتے ہیں۔
1۔ معرفت
بندگی کے ساتھ دو طرفہ تعلق رکھنے والے عوامل میں سے ایک خدا کی معرفت ہے، یعنی ایک طرف انسان کا خدا کے بارے میں معرفت جتنا بڑھتی ہے، بندگی بھی بڑھ جاتی ہے، اور دوسری طرف، ادب بندگی، معرفت کے حصول میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
"إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ"(فاطر28)
لیکن اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں صرف صاحبانِ معرفت ہیں بیشک اللہ صاحب عزّت اور بہت بخشنے والا ہے۔
خدا شناسی اور اللہ تعالی کی معرفت سے مراد یہ ہے کہ انسان اس حقیقت تک پہنچ جائے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ خدا اس کی علت(وجود بخشنے والا) اور خالق ہے اور وہ عین محتاج، نیازمند اور خدا سے وابستہ ہے۔ خدا کی شناخت اور اس مطلب کا سمجھنے سے اور عقیدہ رکھنے سے کہ ابتداء اور معاد کا مالک خداوند متعال ہے، انسان کی انفرادی زندگی اور معاشرتی اور اجتماعی زندگی دونوں میں بہت سے اثرات اور برکتیں ہیں۔
اگر ہم خدا کی عظمت کو سمجھ سکیں، جس کی عظمت انسانوں اور مخلوقات کی عظمت سے اربوں گنا زیادہ ہے، وہ لامحدود سمندر کے سامنے ایک قطرہ کی طرح ہے، ہماری توجہ اور علم کی مقدار کے تناسب سے، ہماری روح میں فروتنی اور عاجزی کی کیفیت کو محسوس کریں گے۔ ہماری معرفت جتنا مکمل ہوگی، یہ احساس ہم میں مزید زندہ اور گہرا ہوگا۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(كنز العمّال،ص5881)«لَو عَرَفْتُمُ اللّه َ حقَّ مَعرِفَتِهِ لَزالتْ بِدُعائكُمُ الجِبالُ»
اگر تم خدا کو اس طرح معرفت رکھتے ہو جو اس کی معرفت کا حق ہے( یعنی کماحقہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرے) تو تمہاری دعا سے ہر آئینہ پہاڑیں اپنی جگہ سے ہٹ اور ہل جائے۔
"لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِی فَضْلِ مَعْرِفَةِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ مَا مَدُّوا أَعْیُنَهُمْ إِلَى مَا مَتَّعَ اللَّهُ بِهِ الْأَعْدَاءَ مِنْ زَهْرَةِ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَ نَعِیمِهَا وَ كَانَتْ دُنْیَاهُمْ أَقَلَّ عِنْدَهُمْ مِمَّا یَطَئُونَهُ بِأَرْجُلِهِمْ، وَ لَنُعِّمُوا بِمَعْرِفَةِ اللَّهِ جَلَّ وَ عَزَّ وَ تَلَذَّذُوا بِهَا تَلَذُّذَ مَنْ لَمْ یَزَلْ فِی رَوْضَاتِ الْجِنَانِ مَعَ أَوْلِیَاءِ اللَّهِ. إِنَّ مَعْرِفَةَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ آنِسٌ مِنْ كُلِّ وَحْشَةٍ وَ صَاحِبٌ مِنْ كُلِّ وَحْدَةٍ وَ نُورٌ مِنْ كُلِّ ظُلْمَةٍ وَ قُوَّةٌ مِنْ كُلِّ ضَعْفٍ وَ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ سُقْم"( الكافي ،ج۸،ص۲۴۷)
امام صادق علیہ السلام سے کافی شریف میں نقل ہوا ہے آپ فرماتے ہیں:
اگر لوگوں کو معرفت الٰہی کی قدر و قیمت معلوم ہوتی تو وہ ان نعمتوں کی طرف کبھی نہ دیکھتے جو اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کو دنیوی زندگی کی خوشحالی اور اس کی نعمتیں ان کو عطا کی ہیں اور ان کی دنیا ان کی نظروں میں کمتر ہوتی جو ان کے پیروں تلے رگڑتے اور روندتے ہیں۔
خدا کی معرفت حاصل کرنے سے اس ذات کی نعمتیں اسے شامل حال ہوگی اور اسے بھرہ مند ہوگا اور وہ ہمشیہ اولیاء اللہ کے ساتھ جنت کے باغوں سے میں رہیں گے۔
درحقیقت خداتعالیٰ کی معرفت ہر خوف سے سکون، ہر تنہائی میں دوست اور ساتھی، ہر اندھیرے میں جلتا ہوا چراغ، ہر کمزوری سے طاقت اور ہر درد کا علاج ہے۔
توجہ کریں؛ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
خدا کی معرفت حاصل کرنے والے کو وہی لذت اور خوشی حاصل ہوتی ہے جو خدا کے اولیاء کو جنت میں حاصل ہوتی ہے۔ وہ خوشیاں جو ہمارے لیے بالکل بیان نہیں کی جا سکتیں۔ نیز خدا کی معرفت سے انسان کو کوئی پریشانی اور تکلیف نہیں ہوگی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی معرفت انسان کی زندگی کو نور سے بھر دیتی ہے۔(جاری ہے)